Arshi khan

Add To collaction

منٹو کے افسانے भाग 3

منٹو کے افسانے 5

پہلا منظر 
(میلو ڈراما) کردار بیگم : ماں(شکستہ) امجد/مجید : بیگم کے بیٹے(ثابت و سالم) سعیدہ : امجد کی نئی نویلی حسین بیوی اصغری : خادمہ کریم اور غلام محمد : نوکر پہلا منظر: (نگارِ ولا کا ایک کمرہ۔۔۔۔۔۔ اس کی خوبصورت شیشہ لگی کھڑکیاں پہاڑی کی ڈھلوانوں کی طرف کھلتی ہیں۔ حدنگاہ تک پہاڑ ہی پہاڑ نظر آتے ہیں جو آسمان کی خاکستری مائل نیلاہٹوں میں گھل مل گئے ہیں۔ کھڑکیوں کے ریشمی پردے صبح کی ہلکی پھلکی ہوا سے ہولے ہولے سرسرا رہے ہیں۔ یہ کمرہ جیسا کہ سازو سامان سے معلوم ہوتا ہے حجلہ عُروسی میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ دائیں ہاتھ کو کھڑکیوں کے پاس ساگوان کی مسہری ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک کونے میں شیشے کی تپائی جس پر بلور کی صراحی اور گلاس کے علاوہ ایک ٹائم پیس رکھی ہے۔ پیچھے ہٹ کر پیازی ٹیفٹے میں ملبوس صوفہ سیٹ ہے اس پر دو ملازم گدیاں سجا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ اس سے دُور ہٹ کر ایک نوجوان خادمہ جو معمولی شکل و صورت کی ہے آتش دان پر سجائی ہوئی مختصر چیزوں کو اور زیادہ سجانے کی کوشش کررہی ہے۔ کمرے کی فضا میں ایسی دوشیزگی ہے جو ذرا سی جنبش سے منکوحیت میں تبدیل ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔ باہر سے ٹائلوں پر کھڑکی کی ننھی ننھی ضربوں کی آواز آتی ہے۔ تینوں خادم ہلکے سے ردّ عمل کے بعد اپنے اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔دروازے سے ایک ادھیڑ عمر کی وجیہہ عورت بیساکھیوں کی مدد سے اندر آتی ہے اور کمرے کا جائزہ لے کر اپنے اطمینان کا اظہار کرتی ہے بیگم صاحب: (بیساکھیوں کی مدد سے کمرے میں ادھر ادھر پھر کر تمام چیزوں کو صحیح مقام پر دیکھ کر اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے) ٹھیک ہے!(ایک بیساکھی کو اپنی بغل سے الگ کرکے صوفے کے بازو کے ساتھ رکھ کر بیٹھنا چاہتی ہے، مگر فوراً ہی اپنا ارادہ ترک کردیتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اس کا ایک ہاتھ سہارے کے لیئے صوفے کے بازو کی چمکیلی سطح کے ساتھ چھوا تھا اور اس پر نشان پڑگیا تھا۔ اپنے دوپٹے کا ایک کونہ پکڑ کر کروہ یہ خود بخود مٹ جانے والا نشان بجھا دیتی ہے اور پھر بیساکھی اپنی بغل میں جما کر نوجوان خادمہ سے مخاطب ہوتی ہے) اصغری! اصغری: (فوراً متوجہ ہو کر) جی! بیگم صاحب: (ایک دم یہ محسوس کرکے کہ وہ بھول گئی ہے کہ اس نے اصغری سے تخاطب کیوں کیا تھا) میں کیا کہنے والی تھی؟ اصغری: (مسکراتی ہے) آ پ یہ کہنے و الی تھیں کہ آپ کا اطمینان نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔ میں بھی یہی سمجھتی ہوں بیگم صاحب۔۔۔۔۔۔ دلہن بہت خوبصورت ہے۔۔۔۔۔۔ اس کمرے کی تمام سجاوٹیں اس کے سامنے ماند پڑ جائیں گی۔ (وہ آتش دان کے عین درمیان میں ریشمی ڈوریوں سے آویزاں، دلہن کی تصویر کی طرف دیکھتی ہے) بیگم صاحب: (مسکراتی ہوئی۔۔۔۔۔۔ آتشدان کی طرف آہستہ آہستہ بڑھتی ہے اور اپنی بہو کی تصویر کو غور سے دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔خوش ہوتی ہے۔ لیکن ایک دم گھبرا سی جاتی ہے)اصغری! اصغری: جی! بیگم صاحب: صبح سے میری طبیعت۔۔۔۔۔۔ کچھ گھبرا سی رہی ہے۔ اصغر: امجد میاں جو آرہے ہیں اپنی دلہن کے ساتھ۔ بیگم صاحب: (اپنے خیالات میں کھوئی کھوئی) ہاں۔۔۔۔۔۔بس آنے ہی والا ہے۔۔۔۔۔۔کمال موٹر لے گیا ہے اسٹیشن پر۔ اصغری: اگلے سال مجید میاں کی شادی کردیجئے۔۔۔۔۔۔ گھر میں رونق ہو جائے گی۔ بیگم صاحب: انشاء اللہ۔۔۔۔۔۔و ہ بھی انشاء اللہ اسی طرح بخیر و خوبی انجام پائے گی۔۔۔۔۔۔(زیر لب)انشاء اللہ اصغری: (دلہن کی تصویر کی طرف دیکھتی ہے اور اس کے حُسن سے بہت متاثر ہوتی ہے) اللہ نظربد سے بچائے۔ بیگم صاحب: (غیر ارادی طور پر قریب قریب چیخ کر)اصغری! اصغری: (سہم کر) جی! بیگم صاحب: کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔گاڑی کب آتی ہے کراچی سے؟ اصغری: معلوم نہیں بیگم صاحب۔ بیگم صاحب: (ایک خادم سے)دیکھوکریم۔ تم ٹیلی فون کرو اور پوچھو۔۔۔۔۔۔لیکن گاڑی تو کل ہی کی راولپنڈی پہنچ چکی ہے۔۔۔۔۔۔ مجید کا تار جو آیا تھا۔ کریم: جی ہاں! بیگم صاحب: اور میں نے کمال کو کس اسٹیشن پر بھیجا ہے۔۔۔۔۔۔(گھبرا کر) خُدا معلوم میرے دماغ کو کیا ہوگیاہے۔۔۔۔۔۔امجد میاں کو رات راولپنڈی ٹھہرنا تھا۔۔۔۔۔۔اپنے دوست سعید کے پاس۔۔۔۔۔۔ اور وہ تو میرا خیال ہے اب وہاں سے چل بھی چکے ہوں گے۔ (دوسرے خادم سے) غلام محمد؟ غلام محمد: جی؟ بیگم صاحب: تم دیکھو کمال کہاں ہے۔۔۔۔۔۔ موٹر کہاں لے گیا ہے؟ غلام محمد: بہت اچھا! (چلا جاتا ہے) بیگم صاحب: (اصغری کے کاندھے کا سہارا لے کر) آج صبح سے میری طبیعت ٹھیک نہیں۔۔۔۔۔۔ چلنے پھرنے سے معذور نہ ہوتی۔۔۔۔۔۔ اس کم بخت ڈاکٹر ہدایت اللہ نے مجھے منع نہ کیا ہوتا تو میں دلہن کو ساتھ لاتی(دُورسے ٹیلی فون کی گھنٹی کی آواز سنائی دیتی ہے) میرا خیال ہے، شاید امجد میاں کے دوست کا ٹیلیفون ہے کہ وہ چل پڑے، جاؤ اصغری۔۔۔۔۔۔بھاگ کے جاؤ۔ (اصغری دوڑی باہر جاتی ہے) بیگم صاحب: (کریم سے۔۔۔۔۔۔ اپنی افسردگی دُور کرنے کی خاطر)بس اب آتے ہی ہوں گے امجد میاں۔ کریم: اللہ خیر خیریت سے لائے۔ بیگم صاحب: (قریب قریب چیخ کر) کیا مطلب ہے تمہارا۔ کریم: (ڈر کر) جی یہی کہ۔۔۔۔۔۔جی یہی۔۔۔۔۔۔ (اصغری کی چیخیں سُنائی دیتی ہیں’’بیگم صاحب،بیگم صاحب‘‘) بیگم صاحب: (سراسیمہ ہوکر) کیوں کیاہوا؟ (اصغری سخت اضطراب کی حالت میں اندر داخل ہوتی ہے) صغری: بیگم صاحب۔۔۔۔۔۔بیگم صاحب بیگم صاحب: (بیساکھیوں کو دونوں ہاتھوں سے مضبوط پکڑکر) کیا ہے؟ اصغری: جی۔۔۔۔۔۔مجید میاں کا ٹیلیفون آیا ہے کہ گاڑی۔۔۔۔۔۔گاڑی ٹکرا گئی ہے۔ بیگم صاحب: (بیساکھیوں پرہاتھوں کی گرفت اور زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے) پھر؟ اصغر: مجید میاں اور ان کی دلہن دونوں زخمی ہوئے ہیں اور ہسپتال میں پڑے ہیں۔ بیگم صاحب: (ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ بیساکھیاں بغل سے گرپڑتی ہیں۔ ایک لحظے کیلئے وہ یوں کھڑی رہتی ہے جیسے پتھر کا بت۔۔۔۔۔۔ پھر اس میں تھوڑی سی جنبش ہوتی ہے۔ اور دروازے کی جانب بڑھتی ہے)کمال سے کہو، موٹر نکالے۔۔۔۔۔۔ ہم راولپنڈی جارہے ہیں۔ (بیگم دروازے کی جانب بڑھ رہی ہے۔۔۔۔۔۔غلام محمد اور اصغری دونوں حیرت زدہ ہیں۔ اصغری زور سے چیختی ہے۔۔۔۔۔۔بیگم پلٹ کر اس کی طرف دیکھتی ہے) بیگم صاحب: کیا ہے؟ اصغری: آپ۔۔۔۔۔۔آپ چل رہی ہیں۔۔۔۔۔۔چل سکتی ہیں۔ بیگم صاحب: میں؟ اپنی بغلوں میں بیساکھیوں کی عدم موجودگی کا احساس کرتے ہوئے)میں؟۔۔۔میں کیسے چل سکتی ہوں؟ (ایک دم چکراتی ہے اور فرش پرگر کر بیہوش ہو جاتی ہے) اصغری: (بیگم کے پاس جاتے ہوئے، غلام محمد سے) غلام محمد جاؤ ڈاکٹر صاحب کو ٹیلیفون کرو۔ (غلام محمد چلا جاتا ہے۔ اصغری، بیگم کو ہوش میں لانے کی کوشش کرتی ہے) ۔۔۔۔۔۔پردہ۔۔۔۔۔۔

   1
0 Comments